-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 2
/
Corpus.txt
4651 lines (2882 loc) · 184 KB
/
Corpus.txt
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
287
288
289
290
291
292
293
294
295
296
297
298
299
300
301
302
303
304
305
306
307
308
309
310
311
312
313
314
315
316
317
318
319
320
321
322
323
324
325
326
327
328
329
330
331
332
333
334
335
336
337
338
339
340
341
342
343
344
345
346
347
348
349
350
351
352
353
354
355
356
357
358
359
360
361
362
363
364
365
366
367
368
369
370
371
372
373
374
375
376
377
378
379
380
381
382
383
384
385
386
387
388
389
390
391
392
393
394
395
396
397
398
399
400
401
402
403
404
405
406
407
408
409
410
411
412
413
414
415
416
417
418
419
420
421
422
423
424
425
426
427
428
429
430
431
432
433
434
435
436
437
438
439
440
441
442
443
444
445
446
447
448
449
450
451
452
453
454
455
456
457
458
459
460
461
462
463
464
465
466
467
468
469
470
471
472
473
474
475
476
477
478
479
480
481
482
483
484
485
486
487
488
489
490
491
492
493
494
495
496
497
498
499
500
501
502
503
504
505
506
507
508
509
510
511
512
513
514
515
516
517
518
519
520
521
522
523
524
525
526
527
528
529
530
531
532
533
534
535
536
537
538
539
540
541
542
543
544
545
546
547
548
549
550
551
552
553
554
555
556
557
558
559
560
561
562
563
564
565
566
567
568
569
570
571
572
573
574
575
576
577
578
579
580
581
582
583
584
585
586
587
588
589
590
591
592
593
594
595
596
597
598
599
600
601
602
603
604
605
606
607
608
609
610
611
612
613
614
615
616
617
618
619
620
621
622
623
624
625
626
627
628
629
630
631
632
633
634
635
636
637
638
639
640
641
642
643
644
645
646
647
648
649
650
651
652
653
654
655
656
657
658
659
660
661
662
663
664
665
666
667
668
669
670
671
672
673
674
675
676
677
678
679
680
681
682
683
684
685
686
687
688
689
690
691
692
693
694
695
696
697
698
699
700
701
702
703
704
705
706
707
708
709
710
711
712
713
714
715
716
717
718
719
720
721
722
723
724
725
726
727
728
729
730
731
732
733
734
735
736
737
738
739
740
741
742
743
744
745
746
747
748
749
750
751
752
753
754
755
756
757
758
759
760
761
762
763
764
765
766
767
768
769
770
771
772
773
774
775
776
777
778
779
780
781
782
783
784
785
786
787
788
789
790
791
792
793
794
795
796
797
798
799
800
801
802
803
804
805
806
807
808
809
810
811
812
813
814
815
816
817
818
819
820
821
822
823
824
825
826
827
828
829
830
831
832
833
834
835
836
837
838
839
840
841
842
843
844
845
846
847
848
849
850
851
852
853
854
855
856
857
858
859
860
861
862
863
864
865
866
867
868
869
870
871
872
873
874
875
876
877
878
879
880
881
882
883
884
885
886
887
888
889
890
891
892
893
894
895
896
897
898
899
900
901
902
903
904
905
906
907
908
909
910
911
912
913
914
915
916
917
918
919
920
921
922
923
924
925
926
927
928
929
930
931
932
933
934
935
936
937
938
939
940
941
942
943
944
945
946
947
948
949
950
951
952
953
954
955
956
957
958
959
960
961
962
963
964
965
966
967
968
969
970
971
972
973
974
975
976
977
978
979
980
981
982
983
984
985
986
987
988
989
990
991
992
993
994
995
996
997
998
999
1000
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بام مینا سے ماہتاب اترے
دست ساقی میں آفتاب آئے
ہر رگ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب
صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اٹھا آخر شب
وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا آخر شب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب
کون کرتا ہے وفا عہد وفا آخر شب
لمس جانانہ لیے مستیٔ پیمانہ لیے
حمد باری کو اٹھے دست دعا آخر شب
گھر جو ویراں تھا سر شام وہ کیسے کیسے
فرقت یار نے آباد کیا آخر شب
جس ادا سے کوئی آیا تھا کبھی اول شب
اسی انداز سے چل باد صبا آخر شب
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
حسن مرہون جوش بادۂ ناز
عشق منت کش فسون نیاز
دل کا ہر تار لرزش پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقف سوز و گداز
سوزش درد دل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
ہو چکا عشق اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
تو ہے اور اک تغافل پیہم
میں ہوں اور انتظار بے انداز
خوف ناکامئ امید ہے فیضؔ
ورنہ دل توڑ دے طلسم مجاز
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
یک بیک شورش فغاں کی طرح
فصل گل آئی امتحاں کی طرح
صحن گلشن میں بہر مشتاقاں
ہر روش کھنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ
پر ہوا جام ارغواں کی طرح
یاد آیا جنون گم گشتہ
بے طلب قرض دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتل
بے سبب مرگ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا
غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
تھے خاک راہ بھی ہم لوگ قہر طوفاں بھی
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا
خوشا کہ آج ہر اک مدعی کے لب پر ہے
وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا
وہ حیلہ گر جو وفا جو بھی ہے جفاخو بھی
کیا بھی فیضؔ تو کس بت سے دوستانہ کیا
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا
ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
تھک کر یوں ہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
کس شہر نہ شہرہ ہوا نادانئ دل کا
کس پر نہ کھلا راز پریشانئ دل کا
آؤ کریں محفل پہ زر زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانی دل کا
دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانئ دل کا
پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانئ دل کا
دیکھو تو کدھر آج رخ باد صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانئ دل کا
اترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانئ دل کا
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلان جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوست گلو جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا بے خوف و خطر اس ہاتھ پہ سر اس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارۂ بام ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے وہ سرمۂ چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا ہم رنگ گل طناز کیا
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا در باز کیا
کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا
تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا
اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا
ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہان دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا
دولت لب سے پھر اے خسرو شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمئی رشک سے ہر انجمن گل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحن گلشن میں کبھی اے شہ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں
کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سر شام فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غمزدوں کو قرار آ گیا
جیسے خوشبوئے زلف بہار آ گئی جیسے پیغام دیدار یار آ گیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رو بہ رو پھر سر رہ گزار آ گیا
صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگا عمر رفتہ ترا اعتبار آ گیا
رت بدلنے لگی رنگ دل دیکھنا رنگ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا اشک امڈے کہ ابر بہار آ گیا
خون عشاق سے جام بھرنے لگے دل سلگنے لگے داغ جلنے لگے
محفل درد پھر رنگ پر آ گئی پھر شب آرزو پر نکھار آ گیا
سرفروشی کے انداز بدلے گئے دعوت قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا
فیضؔ کیا جانیے یار کس آس پر منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
مے کشوں پر ہوا محتسب مہرباں دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا
شرح فراق مدح لب مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام
کس دل ربا کے نام پہ خالی سبو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے نہ نظر کو تلاش بام
دل ساتھ دے تو آج غم آرزو کریں
کب تک سنے گی رات کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں
ہم دم حدیث کوئے ملامت سنائیو
دل کو لہو کریں یا گریباں رفو کریں
آشفتہ سر ہیں محتسبو منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکر دل و جاں عدو کریں
''تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں''
ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اِک تیری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گِلہ نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزہ نہیں باقی
روس کے ملک اشعراء رسول ہمزہ توف کی مارکہ آرا نظم
مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں
مگر آرزو ہے کہ جب قضا
مجھے بزم دہر سے لے چلے
تو پھر ایک بار یہ عزم ہے
کہ لحد سے لوٹ کے آسکھوں
ترے در پہ آکے صدا کروں
تجھے غم گسار کی ہو طلب
تو ترے حضور میں آرہوں
یہ نہ ہو کہ سوئے رہِ عدم
میں پھر ایک بار روانہ ہوں
ترجمہ فیض احمد فیض نسخہ ہائے وفا
روس کے ملک الشعراء “رسول ھمزہ توف“ کی خوبصورت نظم
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے بہ نام خدا
لیکن اب کوئی بات بری اسکی
میرے پلے ذرا نہیں پڑتی
ترجمہ فیض احمد فیض نسخہ ہائے وفا
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا
موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا
کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا
کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا
دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا
صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا
اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کو دستور سےرکھ کر محروم
بدقسمت ملک کو پہلےبقاوسلامتی سےدور کردیا جائے
پھر بےضابطہ ومن مانی آئینی اس میں ردوبدل کرکے
باقیات ملک کو بہ مطابق دستور چکناچور کردیا جائے
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ غم خوار جان دردمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیری دود سپند آیا
مہ اختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے
تماشا کشور آئینہ میں آئینہ بند آیا
تغافل بدگمانی بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہ بے حجاب ناز کو بیم گزند آیا
فضائے خندۂ گل تنگ و ذوق عیش بے پردا
فراغت گاہ آغوش وداع دل پسند آیا
عدم ہے خیر خواہ جلوہ کو زندان بیتابی
خرام ناز برق خرمن سعی سپند آیا
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
ز بس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا
چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغ قاتل کا
نگاۂ چشم حاسد وام لے اے ذوق خود بینی
تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
شرر فرصت نگہ سامان یک عالم چراغاں ہے
بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا
سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولاں تھا
ہوا واماندگی سے رہ رواں کی فرق منزل کا
مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب
عصاۓ خضر صحراۓ سخن ہے خامہ بے دل کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا
سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں
پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا
ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے
دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا
نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا
اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے
برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے
بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے
رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے
فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
نصیر دولت و دیں اور معین ملت و ملک
بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لیے
زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرایش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا
ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے